Aseer e isham Episode 1 Areej Shah
ناول کا اسیر جاناں نام کاپی ہو گیا تھا سو میں نے اسیر عشقم چینج کر لیا ہے😁
°°°°°°°°
اسیر عشقم
قسط نمبر 1
اریج شاہ
°°°°°°
رحم کریں میری بچی معصوم ہے اس کا کوئی قصور نہیں ہے غلطی میرے بیٹے نے کی ہے نا میں خود اسے گولی مار دوں گا سائیں میری بچی پر ظلم نہ کریں ۔۔۔۔۔۔"
دین محمد اس کے پیروں میں گرا التجا کر رہا تھا ۔جب شاہ غصے سے اپنا پیر جھٹکتے ہوئے اس کے کندھے پر لات مارے اسے پیچھے کو گرایا تھا ۔
اگر تم اپنے بیٹے کو سنبھال سکتے دین محمد تو وہ میرے گھر کی عزت پر آنکھ اٹھانے کی غلطی کبھی نہ کرتا۔ اس کو تو میں خود چیڑوں گا ۔
گولی مار کے اتنی آسان موت نہیں دوں گا اسے ،میرے گھر کی عزت برباد کی ہے اس نے شکر کرو کہ تمہاری بیٹی سے نکاح پروا رہا ہوں میں ۔۔۔۔۔"ورنہ جو تمہارے بیٹے نے کیا ہے ۔اگر میں کرتا تو سوچو کیا ہوتا ۔
جب تک میری بہن اور تمہارا بیٹا نہیں مل جاتے تب تک تمہاری بیٹی میرے نکاح میں رہے گی ان دونوں کو اپنے ہاتھوں سے زمین میں گاڑ کر تمہاری بیٹی کو طلاق دوں گا آ کر لے جانا۔آکر لے جانا اپنی بیٹی کو اگر زندہ بچ گئی تو۔۔۔" وہ ایک پیر اس کے کندھے پر رکھتا اسے پیچھے کی طرف دھلکتا دین محمد کی بیٹی کو گھسٹ کر لےگیا تھا ۔
°°°°°°°
دین محمد پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا ۔وہ جرگے کے فیصلے کے سامنے بے بس تھا اپنی معصوم بیٹی ان جلادوں کے ہاتھوں وہ خود ہی برباد کرنے جا رہا تھا ۔
نکاح نامے پر اپنی بیٹی کو دستخط کرنے کی جگہ بتاتے ہوئے اس کا دل جیسے پھٹ جانے کو تھا ۔
شاہ حویلی کا شاہ ویر سکندر شاہ کتنا ظالم تھا سب لوگ جانتے تھے ، جب سے اس نے سیاست میں قدم رکھا تھا جیسے اس کی حکومت چلنے لگی تھی اپنا سکہ منوا لیا تھا اس نے ۔دنیاوی دکھاوے کے لیے اپنے گاؤں میں بھی کافی کام کروا چکا تھا ۔لیکن اس کا مقصد صرف حکومت تھی ۔اسے ہر چیز اپنی ملکیت میں اچھی لگتی تھی
لیکن اس کی حقیقت سے تو جیسے گاؤں کا بچہ بچہ واقف تھا ۔وہ غرور کا چلتا پھرتا مجسمہ تھا جہاں جاتا تھا ۔وہاں لوگ اس کے نام سے کانپتے تھے ۔
غصے کا اتنا تیز تھا کہ باپ کی دوسری شادی کی خبر سن کر اپنے ہی باپ پر گولی چلا دی تھی ۔وہ بھی صرف 10 سال کی عمر میں ۔اور ایسے شخص کو دین محمد صرف اس لیے اپنی بیٹی دے رہا تھا کیونکہ اس کے اپنے بیٹے نے شاہ کی سوتیلی بہن کو گھر سے بھگا کر اس کی عزت کو داغدار کیا تھا۔ اسے اپنی بہن سے بھی کوئی محبت نہیں تھی وہ تو اسے بھی زندہ زمین میں گاڑ دینے کا ارادہ رکھتا تھا ۔
لیکن اس سے پہلے وہ اس کے بیٹے کو سزا دینا چاہتا تھا ۔ممکن تھا کہ اس کا بیٹا جس طرح کسی کے گھر کی عزت بھگا کر لے گیا ہے اسی طرح یہ خبر ملتے ہی کہ اس کی اپنی بہن کو برباد کیا جا رہا ہے واپس آ جائے ۔
اللہ میری بچی پر رحم فرما وہ بے قصور ہے اس نے کچھ نہیں کیا ۔اس کو بے موت مارا جا رہا ہے ۔
زیان تُو مر کیوں نہ گیا ۔میں تجھے اپنے بڑھاپے کا سہارا کہتا تھا تو نے تو اپنی بہن کو برباد کر دیا ۔دین محمد سر پر ہاتھ مارتا اونچی اونچی آواز میں رو رہا تھا جبکہ شاہ نے اس کی بینوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی منکوحہ کا بازو تھام چکا تھا ۔
نہیں مجھے نہیں جانا آپ کے ساتھ چھوڑیے مجھے ۔۔۔۔۔۔مجھے میں نے نہیں جانا آپ کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔آپ کا قصوروار میرا بھائی ہے ۔۔۔۔۔۔۔میں نے کچھ نہیں کیا آپ کی بہن اس کے ساتھ بھاگی ہے ۔۔۔۔۔۔"
چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔اس کے الفاظ ابھی منہ میں ہی تھے جب اس کے منہ پر پڑنے والا زوردار تھپڑ اس کا جبڑا ہلا کر رکھ گیا تھا ۔
ایک لفظ مت بولنا لڑکی ورنہ زبان گدی سے کھینچ لوں گا ۔جب تک تمہارا بھائی میری بہن کو واپس یہاں نہیں لے آتا تب تک تم میرے نکاح میں رہو گی ۔
فکر مت کرو میں تمہیں بیوی بناؤں گا بھی نہیں تمہیں چند دن کی مہمان ہو تم شاہ کے بستر پر۔کیونکہ ممکن ہے کہ اپنی بہن اور تمہارے بھائی کے ساتھ ساتھ تمہیں بھی تمہاری سانسوں سے آزاد کر دوں۔
وہ غصے سے اسے کھینچتا اب کی دفعہ اس کا بازو چھوڑتے ہوئے اسے سر کے بالوں سے پکڑ چکا تھا ۔
اور وہ معصوم لڑکی اس کے ساتھ کھینچتی چلی جا رہی تھی دین محمد کی بینیں اور پیٹنا اسے دور دور تک سنائی دیتا رہا ۔
°°°°°°°°
یہ کہاں لے آئے ہو تم مجھے کوٹھے پر۔۔۔۔۔؟ ارے میں اس طرح کے شوق نہیں رکھتا ۔یار مجھے تو لگا تھا کہ کسی کام کی جگہ پر لے کر جاؤ کہ میرا سٹریس دور ہوگا ٹینشن کم ہوگی۔
لیکن تم مجھے کوٹھے پر لے کے آئے ہو وہ مایوس ہوتا واپس جانے لگا جب اس کے دوست نے اس کا بازو پکڑ کر اسے سیڑھیوں سے اوپر کھینچا تھا۔
ارے چل جانی یہاں دنیا کی سب سے حسین عورتیں ہیں۔
وہ اسے زبردستی گھسیٹ کر اوپر لے آیا تھا یہ لاہور کا بہت بڑا علاقہ ہیرا منڈی تھا ۔
جو ایک زمانے سے مشہور تھا اسے زبردستی اندر لاتے ہوئے اس نے اسے ایک تکیے کے ساتھ زبردستی بٹھایا تھا۔
یار مجھے اس طرح کی چیزوں میں دلچسبی نہیں ہے،میں یہاں نہیں رہ سکتا یہ میرا ٹیسٹ نہیں ہے وہ۔اٹھنےلگا تھا کہ اس کے دوست نے دوبارا بیٹھا دیا۔
ارے یار دس منٹ تو رک اگر اچھا نہیں لگا تو واپس چلیں گے۔وہ جیسے وعدہ کر رہا تھا۔
وہ بد مزہ سا یہ سب کچھ دیکھنے لگا جب رقص شروع ہوا کہیں لڑکیاں ناچ گانا کرتی اپنی ہی مستی میں مگن تھیں ۔
اور پھر جیسے یہ سب کچھ رک گیا تھا سامنے والے کمرے سے سرخ رنگ کے لہنگے میں چہرے پر پردہ کیے ایک لڑکی نکلی تھی۔
وہ قدم اٹھاتی جیسے ہر کسی کے دل پر بجلیاں گرا رہی تھی ۔
اس کی نگاہیں جیسے اس منظر کے ساتھ بندھ گئی تھی وہ نگاہ ہٹا نہیں پایا حالانکہ اس کے چہرے پر نقاب تھا لیکن پھر بھی اس کی آنکھیں جادو کر گئی تھی ۔
وہ کتنی ہی لے ان سب کے سامنے رقص کرتی رہی اس کے چہرے سے پردہ نہ ہٹا تھا اور پھر جیسے اپنا کام ختم کر کے وہ اندر چلی گئی لوگ نوٹوں کی بارش کر رہے تھے جبکہ اس شخص کی دنیا تو اس لڑکی کے جاتے ہی رک گئی تھی ۔
°°°°°°°°
آٹھ سال کی وہ معصوم بچی اپنے باپ کی لاش پر بلک بلک کر رو رہی تھی ۔
اسے بس اتنا پتہ تھا کہ ماں کے جانے کے بعد اس کا باپ بھی اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ ابھی ڈیڑھ ہفتہ پہلے بھی یہاں سے ایک لاشہ اٹھا تھا اور وہ لاشہ اس کے تایا کا تھا ۔
ان کے بچے بھی بری طرح سے رو رہے تھے تڑپ رہے تھے ۔
اور آج وہ رو رہی تھی جس مشن پہ تایا اور اس کے بابا گئے تھے اس مشن میں وہ ملک کو تو سرخرو کر آئے تھے لیکن خود اپنے قدموں پر واپس لوٹ نہ پائے ۔
باہر فائرنگ ہو رہی ہے اس کے باپ کی شہادت کو بہت شان و شوکت سے منایا جا رہا تھا اس کے باپ کا لاشہ پاکستان کے جھنڈے میں قید تھا ۔
جب کہ وہ اندر بیٹھی بلک بلک کر رو رہی تھی ماں تو اسے پیدا کرتے ہی مر گئی تھی اور آج اس کا باپ بھی وطن پر جان نثار کر چکا تھا لیکن اس کا کیا ۔۔۔۔۔؟احمد کا کیا۔۔۔۔۔؟
ہاں ان کا کیا وہ کہاں جائیں وہ کیا کریں کس کے لیے جیئے نہ تو باپ رہا تھا اور نا ہی ماں رہی تھی ۔
ابھی اس کی دادی آئی تھیں۔ جو اس سے کہہ رہی تھیں کہ فخر کرو کہ تمہارا باپ وطن پر شہید ہو گیا ہے لیکن اس آٹھ سال کی بچی کو کیا پتہ کہ فخر کرنا کیسے کہتے ہیں اس سے تو اس کا باپ جدا ہو گیا تھا ابھی تین ہفتے پہلے کی بات تھی جب اس کا باپ اس سے اجازت مانگنے آیا تھا ۔
کہ وہ اپنے مشن پر جائے گا وہ بہت روئی تھی منع کیا تھا۔ بابا مت جاؤ ۔اور پھر اس کے بابا نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کے لیے بہت سارے تحفے لے کے آئیں گے بہت ساری گڑیا بہت سارے کھلونے لے کر آئیں گے ۔
لیکن اب تو اس کا باپ بھی وطن کے جھنڈے میں لپٹا ہوا آیا تھا وہ کس سے تحفے مانگے کس سے اپنی گڑیا مانگے کس سے اپنے کھلونے مانگے ۔کوئی اس کی تکلیف نہیں سمجھ رہا تھا کوئی اس کا درد نہیں سمجھ رہا تھا ۔
ہاں کوئی اس کا درد کوئی اس کی تکلیف نہیں سمجھ رہا تھا ۔
چلو بیٹا اپنے بابا کا اخری دیدار کر لو دادی بڑی ہمت والی تھیں اس کے کمرے میں وہ پانچویں دفعہ آئی تھیں۔ ان کا بیٹا شہید ہوا تھا اور ان کے چہرے پر دکھ کی پرچھائیاں تک نہیں تھیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دو ہفتے پہلے وہ اپنے ایک اور بیٹے کو منوں مٹی تلے دفنا چکی تھیں ۔
اتنی ہمت اتنا حوصلہ کیا بیٹے وطن پر جا نثار کرنے کے لیے پیدا کیے تھے اگر وہ شعور رکھتی تو آج اپنی دادی سے یہ سوال ضرور کرتی ۔
دادی میرے بابا کو زمین کے نیچے دفنا دیں گے ۔۔۔۔۔۔؟وہ دادی کے سینے سے لگتی سوال کرنے لگی تھی ۔
ہاں میری بچی یہ تو ہر مسلمان کے ساتھ کیا جائے گا وہ جب بلاتا ہے ۔تب جانا پڑتا ہے اور تیرا باپ تو شہید ہوا ہے تیرا باپ تو زندہ ہے کیونکہ شہید کبھی نہیں مرتا دادی اسے سمجھا رہی تھیں۔ لیکن وہ انہیں کیا سمجھاتی اس کا باپ مرے یا زندہ رہے اس کا باپ اس کے پاس تو نہیں تھا ۔
دادی اسے باہر زبردستی لے کر آئی تھیں ۔جہاں پر نہ جانے کتنے آرمی یونیفارم والے لوگ تھے ۔دادی نے اسے تھام کر اپنے سینے سے لگا رکھا تھا ۔اپنے باپ کی لاش پر وہ بلک بلک کر رو رہی تھی جبکہ پاس کھڑا اس کا 16 سالہ بھائی بھی حوصلے کے ساتھ کھڑا تھا ۔
ہاں وہ اس کی طرح جذباتی نہیں تھا اسے اپنے باپ کی شہادت پر فخر تھا جس نے اپنے ملک پر اپنی جان نثار کر دی تھی ۔
°°°°°°°°°
پلیز مجھے چھوڑ دیجیے میں نے کچھ نہیں کیا سارا قصور بھائی کا ہے۔ آپ ان کو سزا دیجیے نا میں بالکل بے قصور ہوں مجھے جانے دیجیے ۔میں نے کچھ نہیں کیا ہے ۔میں تو آپ کی بہن کو جانتی تک نہیں ہوں سائیں۔
بابا خود سزا دیں گے بھائی کو آپ کی بہن مل جائے گی واپس خدا کے لیے مجھے جانے دیجیے میں نے کیا بگاڑا ہے آپ کا ۔
وہ التجا کر رہی تھی اس سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھی ۔لیکن یہاں کون اس پر رحم کرنے والا تھا۔ وہ تو غصے سے جیسے ہر حد پار کر جانے کو تھا اپنی وحشت زدہ نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے اسے گھسیٹ کر کمرے میں لایا تھا اور پھر اسے بیڈ پر پھینکتے ہوئے اپنے کندھوں سے اجرک اتار کر دور پھینکی تھی ۔
یہ آنسو بہانہ بند کرو تم نے کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن تمہارے بھائی نے اس حویلی کی بلند دیواروں کو پھلانگنے کی کوشش کی ہے اور اس کی سزا اسے ضرور ملے گی ارے شکر کرو کہ میں نے تمہیں نکاح میں لیا ہے ۔
ورنہ تمہارا بھائی تو میری بغیرت بہن کو گھر سے بھگا کر لے کرگیا ہے نہ جانے اس نے کس طرح کا تعلق بنایا ہوگا ۔
اس گھٹیا ذلیل لڑکی نے میرے خاندان کی ناک کٹائی ہے میں اسے زندہ دیوار میں چنوا دوں گا لیکن بچو گی تم بھی نہیں جب تک تمہارا بھائی نہیں مل جاتا تب تک اس کی سزا تمہیں ملے گی۔اور دعا کرو کہ تم پہلے ہی مر جاؤ کیونکہ اپنے بھائی کی موت اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں پاؤ گی تم وہ غصے سے کہتا ہوا اس کے اوپر سے چادر ہٹا کر دور پھینک چکا تھا ۔وہ چیخیں مار کر خود کو اس کی وحشت سے بچانے کی کوشش کر رہی تھی ۔
لیکن شاید آج ایسا ممکن ہی نہ تھا وہ ایک جھٹکے میں اسے بیڈ پر پھینکتا اس پر سایہ فگن ہوتے ہوئے اپنی تمام تر وحشتیں اس کے نازک وجود پر اتارنے لگا تھا ۔
اس کا انداز انتہائی بے رحمی لیے ہوئے تھا وہ اپنی تمام تر وحشتیں اس کے جسم پر لٹاتا اس کے ذرے ذرے کو اپنی وحشت زیادہ قربت سے جھلسا کر رکھ گیا تھا۔اس کی چیخیں بند کمرے کی طرف در و دیوار کو لرزا رہی تھیں ۔اپنے تمام تر حقوق لے کر وہ اسے بری حالت میں چھوڑ کر چلا گیا تھا۔جب کہ وہ سسکتی تڑپتی رہی تھی ۔لیکن اس شخص کو اس پر رحم نہ آیا تھا۔
اس کا وجود پوری طرح بے جان ہو چکا تھا وہ پوری طرح ہوش و حواس کھو چکی تھی۔اب وہ معصوم انچھوئی کلی اس وحشی کی درندگی کہاں تک برداشت کرتی اس کا وجود ریزہ ریزہ ہو گیا تھا ۔وہ بے حد بری حالت میں اس کے بستر پر پڑی تھی۔جب کہ وہ اپنی درندگی کی چھاپ اس کے وجود پر چھور کر وہاں سے جا چکا تھا ۔
°°°°°°°°°
عاشی عاشی میری بچی دادی بہت حوصلہ کر کے اوپر آئی تھیں۔جب کہ وہ کھڑکی کے ساتھ کھڑی بالکل خاموش تھی آنکھوں سے پانی کا ایک قطرہ نہیں بہہ رہا تھا شاید رات سے رو رو کر تھک چکی تھی ۔
نیچے احمد کو لے آئے ہیں ۔زیادہ دیر نہیں رکھیں گے جنازہ ،تو نیچے آ جا ۔دادی نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تھا جبکہ سترہ سالہ عاشی تیار نہیں تھی اپنے چھیس سالہ بھائی کی شہادت پر آنسو بہانے کے لیے وہ تھک چکی تھی آنسو سوکھ چکے تھے وہ کس کس کے لاشوں پہ آنسو بہائے ۔
اس کا تو پورا کنبہ ہی وطن پر جان نثار ہو چکا تھا۔اب تو کوئی بچا ہی نہیں تھا پہلے دادا پھر تایا پھر تایا کے دو جوان بیٹے پھر اس کا باپ اور آج اس کا اکلوتا بھائی وہ تو پوری کی پوری لٹ گئی تھی ۔کہنے کو قربان ہونے والے وہ وطن کے جانثار سپاہی تھے لیکن وہ اس کے سہارے تھے اس کی دنیا تھے ۔جو لٹ چکی تھی۔
°°°°°°°°
عاشی آپی احمد بھائی شہید ہو گئے میں بھی آرمی میں جاؤں گا ۔مجھے بھی ایسے ہی جھنڈے میں لپٹ کر واپس آنا ہے ۔
زعیم بھاگ کر اس کے پاس آتا اس کے ساتھ لپٹتے ہوئے بولا تھا وہ 10 سال کا بچہ بھی اپنے آپ میں وطن پر جان نثار کرنے کا حوصلہ رکھتا تھا ۔
نہیں کوئی نہیں جائے گا اب آرمی میں اور حوصلہ نہیں ہے ہم میں آنسو بہانے کا ۔بس کر دو خدا کے لیے بس کر دو ۔کب تک یہ سب کچھ چلے گا ۔وہ ہذیانی انداز میں چیخی تھی۔
جبکہ سامنے کھڑے فوجی اسے چیختے ہوئے دیکھ کر حیران ہو گئے تھے شاید وہ اس طرح کی کسی بات کی امید نہیں رکھتے تھے ۔
اس گھر میں شہادتوں کی کمی نہیں تھی اور یہاں ہمیشہ ہی بہت صبر و سہارے سے ہر شہادت کو قبول کیا گیا تھا لیکن وہ معصوم بچی جو اپنا سب کچھ کھو چکی تھی وہ یہ سب کچھ قبول نہیں کر پا رہی تھی ۔
چلے جاؤ یہاں سے تم سب لوگ چلے جاؤ نفرت ہے مجھے تم سب سے، سب کچھ چھین لیا ہے تم لوگوں نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا ہے میرے دادا بابا تایا بھائی سب کچھ چھین لیا ہے تمہاری وردی نے مجھ سے ۔
نفرت ہے مجھے تم لوگوں سے نفرت ہے چلے جاؤ ادھر سے وہ بلک کر روتی جیسے پاگل ہو جانے کو تھی دادی نے اسے تھاما تو تائی امی بھی آگے بڑھتے ہوئے اس کے کندھے سے ڈھلکی چادر کو اس پر ڈالتی اسے زبردستی اندر گھسیٹ کر لے گئی تھیں۔ جبکہ وہ روتے روتے نہ جانے کب ان کے بازو میں ہوش و ہواس سے بیگانہ ہو گئی تھی ۔
جوانو۔۔۔! اس جوان کی آخری منزل کا سفر شروع ہونا چاہیے چیف نے ان کی طرف مڑ کر دیکھتے ہوئے کہا تھا وہ سب ایک دم الرٹ کھڑے تھے۔ جبکہ `ان میں سے ایک انسان ایسا بھی تھا جس کی نگاہیں مسلسل اس دروازے کی طرف اٹھی ہوئی تھی جہاں سے ابھی وہ لڑکی غائب ہوئی تھی۔`
`°°°°°°°`
راجب آج ہی اپنی ڈیوٹی سے واپس آیا تھا۔اس دفعہ تو چار مہینے کا لمبا عرصہ لگ گیا تھا۔اسے گھر واپس آتے ہوئے اس کے آتے ہی گھر میں رونق لگ گئی تھی ۔
سارے کزنز اس کے آگے پیچھے اکٹھے ہو کر اس سے کچھ نہ کچھ پوچھ رہے ہیں چھوٹا زعیم تو اس کی وردی دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا تھا ۔
بس اسے آرمی میں جانا تھا۔ اور اپنے بابا کی طرح ایک بہادر افیسر بننا تھا۔ ان کی طرح شہادت کا رتبہ پانا تھا وہ 10 سال کا بچہ اپنے آپ میں ملک پر جان نثار کرنے کا جنون رکھتا تھا ۔
ارے عاشی کدھر ہے امی ۔۔۔؟وہ جب سے یہاں بیٹھا ہوا تھا۔یہ سوال اس نے کوئی دسویں دفعہ پوچھا تھا جب کہ امی کہہ دیتیں کہ یہیں کہیں ہے اور پھر بات ختم ہو جاتی ۔
جبکہ راجب تو کسی کو کھل کر اپنے دل کی فیلنگز بھی نہیں بتا سکتا تھا کہ اس لڑکی کو دیکھے بغیر اسے سکون نہیں ہے ۔وہ امی کو اپنے دل کا حال سنا چکا تھا اتنا ہی کافی تھا۔بس اب امی بات کو آگے بڑھا دیں۔
یہ عاشی کدھر رہ گئی ہے میں کب سے ویٹ کر رہا ہوں۔ کم سے کم چار مہینے کے بعد اپنے کزن کو اپنی شکل تو دکھا دے ۔آتا ہوں میں اس سے مل کر اب کی دفعہ ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹا تو وہ اٹھ گیا تھا ان سب کے بیچ سے ۔
پہلے کھانا کھا لو باقی سب کچھ بعد میں، امی نے اسے اوپر نہیں جانے دیا تھا جب کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی امی کے ساتھ کچن میں آگیا تھا ۔
امی پہلے مجھے یہ بتائیں کہ آپ نے دادی سے بات کی ہے یا نہیں وہ ان کے ساتھ کچن میں آتا سوال کرنے لگا تھا جب کہ وہ اس کے سوال پر لب بینچ کر رہ گئیں ۔
صبر کر جاؤ راجب اتنے اتاولے کیوں ہو رہے ہو ابھی چار مہینے پہلے اس نے اپنا بھائی کھویا ہے ۔اس کی رگ رگ میں آرمی والوں کے لیے نفرت بھری ہوئی ہے۔ تم سے بھی بات کرنا چھوڑ چکی ہے کیونکہ تم آرمی میں ہو۔اگر اب میں تمہارا رشتہ مانگوں گی تو وہ مزید بدظن ہوگی وردی سے تو عجیب سی چر ہو گئی ہے۔اسے نہیں برداشت اسے اپنے قریب بھی کوئی وردی والا اور تم اس بات کو سمجھنے کا نام نہیں لے رہے ،صبر رکھو میں موقع دیکھ کر بات چلاتی ہوں۔
تھوڑا سا صبر کرو اسے 18 سال کا تو ہو جانے دو میں رشتہ مانگ لوں گی تھوڑا وقت دو اسے ان ساری چیزوں سے نکلنے کا۔ ماں باپ کو بچپن میں ہی کھو دیا تھا۔ اب اکلوتا بھائی بھی دنیا میں نہیں رہا فی الحال اس کی مینٹل کنڈیشن سمجھنے کی کوشش کرو ۔
امی ایک دفعہ میرا نکاح پروا دیں میں اس کا سارا مینٹل سٹریس ختم کر دوں گا ۔میں اسے بہت خوش رکھوں گا اسے کوئی دکھ نہیں ہونے دوں گا۔
آپ بات تو کریں دادی سے میں نہیں رہ سکتا اس کے بغیر وہ 28 سال کا جوان خوبرو ان کے کندھے پہ اپنا سر رکھتے ہوئے اپنی فیلنگز بیان کر گیا تھا جبکہ امی مسکرادی تھیں۔
وہ تو خود عاشی کو بہت پسند کرتی تھیں۔وہ معصوم تو جان تھی ان کی۔وہ خود اسے اپنے گھر کی بہو بنانا چاہتی تھیں اور عاشی جیسی بچی بہو کے روپ میں بلا کسے قبول نہیں ہوگی وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ ان کی نند بھی آج کل میں عاشی کا رشتہ لے کر آنے والی ہے اس سے تو پہلے پہلے ہی وہ اپنی ساس سے اس سلسلے میں بات کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔
°°°°°°°°°
اللہ جی مجھے بچا لیجیے مجھے اس وحشی انسان سے بچا لیجیے۔ میں نہیں رہ سکتی یہاں اللہ جی مجھے یہاں نہیں رہنا ۔
اللہ جی مجھے میرے ابو کے پاس واپس جانا ہے اپنی امی کے پاس جانا ہے۔ بھائی نے کیا کر دیا بھائی ایسا تو نہیں تھا ۔
اللہ جی مجھے لگتا ہے شاہ سائیں کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ ورنہ میرا بھائی ایسا نہیں ہے وہ کسی کی بہن بیٹی کی عزت کو اس طرح سے بےمول کیسے کر سکتا ہے ۔۔۔۔۔؟
وہ تو خود ایک
بہن کا بھائی ہے وہ تو شہر گیا تھا نوکری کرنے کے لیے تاکہ میرے جہیز کے پیسے جمع کر سکے میری شادی کر سکے ۔
اللہ جی میرا بھائی اتنا گنہگار کیسے ہو گیا وہ ایسا نہیں ہے ۔یا اللہ جی میری مدد کیجیے ۔اگر تو یہ سب کسی غلط فہمی کی وجہ سے ہو رہا ہے تو اس غلط فہمی کو دور کر دیجیے یا اللہ جی میرا بھائی مل جائے نہ جانے وہ کس حال میں ہوگا ۔۔۔
نہیں اللہ جی میرا بھائی نہ ملے۔۔۔۔"
اگر وہ مل گیا تو تو شاہ سائیں اسے قتل کر دیں گے۔ اللہ جی میرے بھائی کو بچا لیجیے۔ اسے کچھ نہ ہو وہ جہاں بھی ہو صحیح سلامت ہو اور اس نے کوئی غلطی نہ کی ہو۔
یا اللہ اس نے کسی بہن بیٹی کی عزت کو گھر کی چار دیواریوں سے نکال کر اپنے ماں باپ کی تربیت کو رسوا نہ کیا ہو ۔
یا اللہ جی میری دعائیں قبول کر لیجیے وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی خدا سے دعا مانگ رہی تھی ۔نہ جانے کس سوچ کے تحت اس نے کمرے میں قدم رکھا وہ اس کی اجرک کو زمین پر بچھائے ملازمہ کے دیے سوٹ میں نماز ادا کر رہی تھی اسے اس طرح سے سسکتے پا کر وہ الٹے قدم لوٹ گیا تھا۔
°°°°°°°
اٹھو لڑکی یہاں رانی بنا کر نہیں لایا ہوں تمہیں ونی کروا کے لایا ہوں اٹھو ۔۔۔۔یہ آرام بعد میں کر لینا وہ انتہائی غصے سے اس کا بازو پکڑ کر اسے زمین پر کھینچ چکا تھا۔ جبکہ وہ جو ایک ہی رات میں اس کی شدت سہ کر بے حد بری حالت میں تھی ۔
اس کے بے رحمانہ انداز پر اٹھ کر اس کے سامنے کسی گنہگار کی طرح کھڑی ہو گئی تھی ۔
وہ رات کو اسے کافی بری حالت میں چھوڑ کر گیا تھا صبح فجر کے وقت نجانے کیوں وہ اوپر آیا تھا جب اس نے دیکھا تھا اسے وہ نیچے قالین پر اس کی اجرک پھیلائے نماز ادا کرتے ہوئے بری طرح سے رو رہی تھی یقینا خود پر ہوئے ظلم کو اللہ کے سامنے بیان کرتے ہوئے اس کے لیے بد دعائیں کر رہی ہوگی ۔
لیکن شاید وہ مظلوموں کی بددعاؤں سے بھی خوفزدہ نہ تھا تبھی تو ایک دفعہ پھر سے اس کے سر پر سوار تھا ۔
رانی بنا کر نہیں لایا میں تمہیں یہاں ،آج سے تم اس حویلی کی ملازمہ ہو اس گھر کا کونا کونا صاف کرنا ہے تم نے اور شام میرے گھر آنے سے پہلے بہترین کھانا بنا کر رکھنا ہے اگر ایک بھی کام میں ذرا سے بھی غلطی ہوئی ۔تو چمری ادھیڑ کر رکھ دوں گا مجھ سے کسی طرح کی نرمی کی امید مت رکھنا اور ہاں ملازمہ تھوڑی دیر میں تمہارے لیے کچھ بہتر کپڑے دے کر جائے گی رات کو جب میں گھر واپس آؤں تو مجھے اس حالت میں نہ ملنا۔
اس گھر میں بے شک سارا دن تم ملازم بن رہو گی لیکن رات کو میرے بستر پر میری بیوی بنو گی۔ ایک رات میں اتنی پسند آگئی ہو کہ تمہیں چند دن کے لیے اپنی قربت کے لمحات بخش دوں گا۔اس زندگی کو قبول کر لو یہی تمہاری اوقات ہے اور آج سے اسی اوقات میں رہنا ہے تمہیں وہ اسے ایک جھٹکے میں واپس پیچھے ہٹاتا لمبے لمبے ڈنگ بھرتا کمرے سے نکل گیا تھا ۔
جب کہ وہ معصوم اس کی وحشت زدہ آواز پر اب تک کانپ رہی تھی۔
°°°°°°°°
دلچسبی پر ڈیپینڈ کرتا ہے پائی جی ناول😳 میں نے اس ناول کی بہت ساری قسطیں لکھ کر رکھ لی ہیں سو سرپرائز آنےکے بھی انھے وا چانس ہیں سو کرو لائک کمنٹ اور 😁😁
2 Comments
Next plz
ReplyDeleteAslam u alaikum areej ap kesi h novel buhat acha h per mene TikTok per dekha tha k aseer e ishqam me yaram kazmi and kaizan kazmi h Kya esa nhi h plzz tell me
ReplyDelete